جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
by احمد حسین مائل

جنبش میں زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
گردش میں چشم سحر فن ایک اس طرف ایک اس طرف

عارض پہ زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف
ہیں آج دو سورج گہن ایک اس طرف ایک اس طرف

مطلب اشاروں سے کہا میں ان اشاروں کے فدا
آنکھیں بھی ہیں گرم سخن ایک اس طرف ایک اس طرف

جس دم سکندر مر گیا حال تہی دستی کھلا
تھے ہاتھ بیرون کفن ایک اس طرف ایک اس طرف

جائے گا دو ہو کر یہ دل آدھا ادھر آدھا ادھر
کھینچے گی زلف پر شکن ایک اس طرف ایک اس طرف

غیروں سے کھیل کھیلو نہ تم کر دیں گے رسوا حشر میں
ہیں دو فرشتے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف

عارض پہ سمٹے خودبخود زلفوں کے گھونگر والے بال
ہے نافۂ مشک ختن ایک اس طرف ایک اس طرف

شیریں کا خواہاں حشر میں خسرو بھی ہے فرہاد بھی
کھینچیں گے دونوں پیرہن ایک اس طرف ایک اس طرف

گھونگٹ جو گالوں سے اٹھا تار نظارہ جل گیا
سورج تھے دو جلوہ فگن ایک اس طرف ایک اس طرف

قاتل ادھر جراح ادھر میں نیم بسمل خاک پر
اک تیر کش اک تیر زن ایک اس طرف ایک اس طرف

آنکھوں کے اندر جائے غیر آنکھوں کے اوپر ہے نقاب
خلوت میں ہیں دو انجمن ایک اس طرف ایک اس طرف

وہ ہاتھا پائی ہم نے کی بستر پہ ٹوٹے اور گرے
بازو کے دونوں نورتن ایک اس طرف ایک اس طرف

پیش خدا روز جزا میں بھی ہوں چپ قاتل بھی چپ
گویا کھڑے ہیں بے دہن ایک اس طرف ایک اس طرف

رخسار پر خط کا نشاں گل پر ہوا سبزہ عیاں
ہیں دونوں عارض دو چمن ایک اس طرف ایک اس طرف

کافر بھی ہوں مومن بھی ہوں جلنا بھی ہے گڑنا بھی ہے
کھینچیں گے شیخ و برہمن ایک اس طرف ایک اس طرف

گھبرا نہ جائیں دل جگر ہے بند تربت میں ہوا
پنکھے ہوں دو نزد کفن ایک اس طرف ایک اس طرف

یا رب اٹھوں جب قبر سے دو بت رہیں ہم رہ مرے
غارت گر ہند و دکن ایک اس طرف ایک اس طرف

کہتے ہیں انمول اس کو سب کہتے ہیں کچھ گول اس کو سب
کیا چیز ہے اے جان من ایک اس طرف ایک اس طرف

جنت کی حوریں آئیں ہیں مائلؔ دبانے میرے پاؤں
بیٹھی ہیں نزدیک کفن ایک اس طرف ایک اس طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse