جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
by نسیم میسوری

جنبش ابروئے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
بلبل جاں مری بسمل کبھی ایسی تو نہ تھی

وعدۂ وصل کیا کس نے دیا دم کس نے
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

اے شہ حسن رقیب آپ کا قادر نکلا
فوج عشاق کی بیدل کبھی ایسی تو نہ تھی

مہرباں آئے کدھر آج کدھر نکلا چاند
رشک افلاک یہ محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

وہ مہ نو مگر آیا کسی مہتابی پر
چاندنی اے مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

اپنے کاشانے سے کیوں غیر کے گھر ہو آئے
ماہ رو آپ کی منزل کبھی ایسی تو نہ تھی

کس طرح وصل ہوا اس گل زیبا سے نسیمؔ
خوش نصیبی مجھے حاصل کبھی ایسی تو نہ تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse