جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
by رنجور عظیم آبادی

جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے
تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے

اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے
قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے

ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا
جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے

کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے
عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے

مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے
نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے

وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے
چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے

ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں
کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے

پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر
نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے

تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے
کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے

دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے
عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse