جمع ہیں سارے مسافر نا خدائے دل کے پاس
Appearance
جمع ہیں سارے مسافر نا خدائے دل کے پاس
کشتیٔ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
سارباں کس جستجو میں ہے یہاں مجنوں کہاں
اب بگولا بھی نہ بھٹکے گا ترے محمل کے پاس
ابتدائے عشق یعنی ایک مہلک حادثہ
آ گئی ہستی یکایک موت کی منزل کے پاس
نعمتوں کو دیکھتا ہے اور ہنس دیتا ہے دل
محو حیرت ہوں کہ آخر کیا ہے میرے دل کے پاس
یہ ترے دست کرم کو کھینچ لے گا ایک دن
اے خدا رہنے نہ دے دست دعا سائل کے پاس
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |