جل گیا خاک ہوا کب کا وہ پروانۂ دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جل گیا خاک ہوا کب کا وہ پروانۂ دل
by ثاقب لکھنوی

جل گیا خاک ہوا کب کا وہ پروانۂ دل
ختم ہوتا نہیں اب تک مگر افسانۂ دل

حشر کے دن پہ اٹھا رکھ کہ بڑا سودا ہے
عالم حسن سے ممکن نہیں بیعانۂ دل

آپ کی اک نگہ ناز اسے چھلکا دیتی
قابل شربت دیدار تھا پیمانۂ دل

ہم جبھی سمجھے تھے انجام کہ جب فطرت نے
خاک اور خون سے تیار کیا خانۂ دل

جلنے والے سے الگ ہو گئے ہم مشرب جاں
دے کے آگ اٹھ گئی وہ صحبت رندانۂ دل

تشنۂ جام محبت سے ہمیں واقف ہیں
قدر کیا ان کو جو توڑا کئے پیمانۂ دل

دوہری زنجیروں میں جکڑا ہے مقدر نے مجھے
اس کا دیوانہ ہے دل اور میں دیوانۂ دل

ضبط کرتا ہوں مگر ڈر ہے کہ شام غم میں
کہیں تنگ آ کے نہ کھل جائے سلح خانۂ دل

اب تو قطرہ نہیں ہاں وہ بھی کبھی دن تھے کہ ہم
مست ہو جاتے تھے خود دیکھ کے میخانۂ دل

جائے امید و تمنا کا پتا ملتا ہے
اب بھی دل کش ہے مرے واسطے ویرانۂ دل

ہے تو مٹی کا مگر قدرت خالق بھی ہے
حسن والے نہ بنا لیں کوئی پیمانۂ دل

دیکھ کر تفرقۂ مہر و جفا ہم سمجھے
ایک ہی وضع کا بنتا نہیں کاشانۂ دل

کائنات دو جہاں پاس ہے پھر تنگ نہیں
اور بھی کچھ ہو تو خالی ہے ابھی خانۂ دل

رخ رنگین حسیں ایک چمن ہے لیکن
روندنے کے لئے ہو سبزۂ بیگانۂ دل

حسن ہے خود ہیں زمانہ ہے وہ کیوں گھبرائیں
اور یہاں کیا ہے مگر ہاں وہی ویرانۂ دل

مٹ کے تصویر خرابات ہے اب تو ورنہ
کعبہ کہتے تھے سب ایسا تھا صنم خانۂ دل

کہئے قصہ کوئی ارباب وفا کا ثاقبؔ
چھوڑیئے ذکر جفا کا کہ ہے بیگانۂ دل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse