جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
Appearance
جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
کھلتے نہیں ہیں راز جو سوز نہاں کے ہیں
کیا پھوٹنے کے واسطے چھالے زباں کے ہیں
کرتے ہیں قتل وہ طلب مغفرت کے بعد
جو تھے دعا کے ہاتھ وہی امتحاں کے ہیں
جس روز کچھ شریک ہوئی میری مشت خاک
اس روز سے زمیں پہ ستم آسماں کے ہیں
بازو دکھائے تم نے لگا کر ہزار ہاتھ
پورے پڑے تو وہ بھی بہت امتحاں کے ہیں
ناصح کے سامنے کبھی سچ بولتا نہیں
میری زباں میں رنگ تمہاری زباں کے ہیں
کیسا جواب حضرت دل دیکھیے ذرا
پیغام بر کے ہاتھ میں ٹکڑے زباں کے ہیں
کیا اضطراب شوق نے مجھ کو خجل کیا
وہ پوچھتے ہیں کہئے ارادے کہاں کے ہیں
عاشق ترے عدم کو گئے کس قدر تباہ
پوچھا ہر ایک نے یہ مسافر کہاں کے ہیں
ہر چند داغؔ ایک ہی عیار ہے مگر
دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |