جلوۂ دیدار تو اک بات ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلوۂ دیدار تو اک بات ہے
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی

جلوۂ دیدار تو اک بات ہے
لن ترانی عاشقوں کی گھات ہے

آشنا جس کا ہے تو آرام جاں
وہ جہاں میں مورد آفات ہے

بوسۂ رخ دے زکات حسن ہے
اے حسیں یہ داخل حسنات ہے

آئنہ خانہ بنا ہے میرا دل
دیکھ لے کیا خوش نما مرآت ہے

جان و دل تھا نذر تیری کر چکا
تیرے عاشق کی یہی اوقات ہے

گریۂ عشاق پر ہیں خندہ زن
کہتے ہیں کیا خوش نما برسات ہے

ہجر کی شب ہے ہجوم صد بلا
میں ہوں تنہا اور خدا کی ذات ہے

خاتمہ با لخیر ہو جائے کہیں
شرم اپنی اب خدا کے ہاتھ ہے

زندگی ہے چار دن کی چاندنی
پھر وہی ساقیؔ اندھیری رات ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse