جلوۂ دربار دہلی
سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا
جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹؔ کو دیکھا
پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے
خیموں کا اک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا
سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لیمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بیرنگی بارنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی دیکھی
اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منہ کو اگرچہ لٹکا دیکھا
دل دربار سے اٹکا دیکھا
ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زریں جھولیں نور کا عالم
میلوں تک وہ چم چم چم چم
پر تھا پہلوئے مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئی نہیں تھا کسی کا سامع
سب کے سب تھے دید کے طامع
سرخی سڑک پر کٹتی دیکھی
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی
لطف کی دولت لٹتی دیکھی
چوکی اک چولکھی دیکھی
خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی
ایک کا حصہ من و سلویٰ
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا
میرا حصہ دور کا جلوا
اوج بریش راجا دیکھا
پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا
رخ کرزن مہراج کا دیکھا
پہنچے پھاند کے سات سمندر
تحت میں ان کے بیسوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر
اپنی جگہ ہر ایک سکندر
اوج بخت ملاقی ان کا
چرخ ہفت طبقاقی ان کا
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں میری باقی ان کا
ہم تو ان کے خیر طلب ہیں
ہم کیا ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں
سب سامان عیش و طرب ہیں
اگزبشن کی شان انوکھی
ہر شے عمدہ ہر شے چوکھی
اقلیدس کی ناپی جوکھی
من بھر سونے کی لاگت سوکھی
جشن عظیم اس سال ہوا ہے
شاہی فورٹ میں بال ہوا ہے
روشن ہر اک ہال ہوا ہے
قصۂ ماضی حال ہوا ہے
ہے مشہور کوچہ و برزن
بال میں ناچیں لیڈی کرزن
طائر ہوش تھے سب کے لرزن
رشک سے دیکھ رہی تھی ہر زن
ہال میں چمکیں آ کے یکا یک
زریں تھی پوشاک جھکا جھک
محو تھا ان کا اوج سما تک
چرخ پہ زہرہ ان کی تھی گاہک
گو رقاصۂ اوج فلک تھی
اس میں کہاں یہ نوک پلک تھی
اندر کی محفل کی جھلک تھی
بزم عشرت صبح تلک تھی
کی ہے یہ بندش ذہن رسا نے
کوئی مانے خواہ نہ مانے
سنتے ہیں ہم تو یہ افسانے
جس نے دیکھا ہو وہ جانے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |