جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا
by سیماب اکبرآبادی

جلوہ گاہ دل میں مرتے ہی اندھیرا ہو گیا
جس میں تھے جلوے ترے وہ آئنہ کیا ہو گیا

جب تصور نے بڑھا دی نالۂ موزوں کی لے
ساز بے آواز سے اک شعر پیدا ہو گیا

نجد کے ہرنوں سے اعجاز محبت پوچھیے
پڑ گئی جس پر نگاہ قیس لیلیٰ ہو گیا

جان دے دی میں نے تنگ آ کر وفور درد سے
آج منشائے جفائے دوست پورا ہو گیا

اب کہاں مایوسیوں میں ضبط کی گنجائشیں
وہ بھی کیا دن تھے کہ تیرا غم گوارا ہو گیا

دل کھنچا جتنا قفس میں آشیانے کی طرف
دور اتنا ہی قفس سے آشیانا ہو گیا

رفتہ رفتہ ہو گئے جذب اس میں جلوے سینکڑوں
دل مرا سیمابؔ تصویر سراپا ہو گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse