جلوہ فرما دیر تک دل بر رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلوہ فرما دیر تک دل بر رہا
by عزیز الحسن غوری

جلوہ فرما دیر تک دل بر رہا
اپنی کہہ لی سب نے میں ششدر رہا

جسم بے حس بے شکن بستر رہا
میں نئے انداز سے مضطر رہا

میں خراب بادہ و ساغر رہا
دل فدائے ساقیٔ کوثر رہا

میں رہا تو باغ ہستی میں مگر
بے نوا بے آشیاں بے پر رہا

سب چمن والوں نے تو لوٹی بہار
اور مجھے صیاد ہی کا ڈر رہا

کوئی سمجھا رند کوئی متقی
لب پہ توبہ ہاتھ میں ساغر رہا

تھم رہے آنسو رہی دل میں جلن
نم رہیں آنکھیں کلیجہ تر رہا

عمر بھر پھرتا رہا میں در بدر
مر کے بھی چرچا مرا گھر گھر رہا

سیکڑوں فکریں ہیں تم کو عاقلو
تم سے تو مجذوبؔ ہی بہتر رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse