جلد حسن و جمال جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلد حسن و جمال جاتا ہے
by میر حسن دہلوی

جلد حسن و جمال جاتا ہے
نہیں رہتا یہ حال جاتا ہے

جب تلک دیکھتا نہیں اس کو
دل میں کیا کیا خیال جاتا ہے

کون سے وقت عرض حال کروں
وہ تو ہر وقت ٹال جاتا ہے

جس کا ہوتا ہے غم سے دل بھاری
وہ ترے در پہ ڈال جاتا ہے

سرسوں آنکھوں میں کیوں نہ پھولے اب
زرد اوڑھے دو شال جاتا ہے

صاف سمجھا نہیں مجھے عاشق
بات کہتے سنبھال جاتا ہے

جان دیتا ہوں جلد دیکھوں تو
نامہ بر کیسی چال جاتا ہے

نکتہ چینوں نے کچھ کہا تو کیا
کوئی اس میں کمال جاتا ہے

کچھ رہائی نظر نہیں آتی
یوں ہی اب کا بھی سال جاتا ہے

آہ مثل شب جوانی جلد
کیا یہ روز وصال جاتا ہے

دلبری وہ صنم کرے میری
کچھ بھلا احتمال جاتا ہے

یوں خدا کی خدائی ہے معمور
پر کب اپنا خیال جاتا ہے

تو تو خوش ہو حسنؔ کے جانے سے
تیرا رنج و ملال جاتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse