جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ
by شاہ مبارک آبرو

جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ
ہوتے ہیں داغ دل میں جوں جوں کتے ہو لا لا

بکسا ہے تمام ظالم تجھ چشم کا دنبالا
لاگا ہے اس کے دل میں دیکھا ہے جن میں بھالا

اس شوخ سرو قد کوں ہم جانتے تھے بھولا
مل اوپری طرح سیں کیا دے گیا ہے بالا

اے سرد مہر تجھ سیں خوباں جہاں کے کانپے
خورشید تھرتھرایا اور ماہ دیکھ ہالا

جب سیں ترے ملائم گالوں میں دل دھنسا ہے
نرمی سوں دل ہوا ہے تب سوں روئی کا گالا

فوجاں سیں بڑھ چلے جوں یکا کوئی سپاہی
یوں خال چھوٹ خط سیں مکھ پر رہے نرالا

کیوں کر پڑے نہ میرے گریے کا شور جگ میں
امڈا ہے مجھ نین سیں انجھواں کے ساتھ نالا

جوگی ہوا پے ناتا لالچ کا چھوڑتا نہیں
کہتا ہے سب کوں بابا جپتا پھرے ہے مالا

جھمکی دکھا نگہ کی دل چھین لے چلی ہیں
یہ کس تری انکھیوں کوں سکھلا دیا چھنالا

اشعار آبروؔ کے رشک گہر ہوئے ہیں
داغ سخن سیں اس کو لولو ہوا ہے لالا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse