جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر
by ساحر دہلوی

جلا ہے کس قدر دل ذوق کاوش ہائے مژگاں پر
کہ سو سو نشتروں کی نوک ہے اک اک رگ جاں پر

پڑا ہوگا مگر عکس عذار لالہ گوں ورنہ
یہ گستاخی ہمارا خون اور قاتل کے داماں پر

طریق عشق میں ہے رنج پہلے اور خوشی پیچھے
مدار صبح روز وصل ہے اک شام ہجراں پر

مری دیوانگی روز قیامت میرے کام آئی
قلم رحمت کا کھینچا اس نے آخر میرے عصیاں پر

اگر ان کے تغافل کو ہے دعویٰ اپنی تمکیں کا
ہماری خود فراموشی کو ہے ناز اپنے نسیاں پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse