جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
by جلالؔ لکھنوی

جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی
وہ یاد ہی ہمیں شکر خدا نہیں آتی

نکل کے تا بہ لب آہ رسا نہیں آتی
کراہتا ہے جو اب دل صدا نہیں آتی

ہماری خاک کی مٹی ہے کیا خراب اے چرخ
کبھی ادھر کو ادھر کی ہوا نہیں آتی

شب وصال کہاں خواب ناز کا موقع
تمہاری نیند کو آتے حیا نہیں آتی

عدو ہماری عیادت کو لے کے آئے انہیں
کہاں یہ مر رہی اب بھی قضا نہیں آتی

لحد پہ آئے تھے دو پھول بھی چڑھا جاتے
ابھی تک آپ میں بوئے وفا نہیں آتی

مری لحد کو وہ ان کا یہ کہہ کر ٹھکرانا
صدائے نعرۂ صد مرحبا نہیں آتی

ستم ہے اور مرے دل شکن کا یہ کہنا
شکست شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی

جلالؔ ہم یہ نہ مانیں گے تو اسے نہیں یاد
تجھے کبھی کوئی ہچکی بھی کیا نہیں آتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse