جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
by شوق قدوائی

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا
مری وفا کا اسے اعتبار کیوں آیا

یہ دل کی بات ہی منہ سے ادا نہیں ہوتی
میں کیا کہوں کہ یہاں بار بار کیوں آیا

خیال پرسش محشر سے وہ ہوا مغموم
نظر کے سامنے میرا مزار کیوں آیا

کہاں وہ ہاتھ میں پاؤں حسین لڑکوں کے
سڑی نہیں تو سوئے کوہسار کیوں آیا

تڑپ تھی مر کے بھی میت پہ شاید آیا وہ
نہیں یہ بات تو دل کو قرار کیوں آیا

ہوا میں خاک تو وہ لڑ رہا ہے آندھی سے
کہ تیرے ساتھ مرے گھر غبار کیوں آیا

وہ انتظار کی لذت بھی لے گیا اے شوقؔ
ہوا کے گھوڑے پہ ظالم سوار کیوں آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse