جفا و جور کا اس سے گلہ کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جفا و جور کا اس سے گلہ کیا
by مصطفٰی خان شیفتہ

جفا و جور کا اس سے گلہ کیا
جو پوچھے مہربانی کیا، وفا کیا

وہ بے پروا جوابِ نامہ لکھے
خدا جانے کہ دشمن نے لکھا کیا

دیا کیوں ہونے اس بد خو پہ عاشق
ہمارا دوست کوئی بھی نہ تھا کیا

شمیمِ گل میں بوئے پیرہن ہے
غلط ہے یہ کہ احسانِ صبا کیا

نہ لکھنا تھا غمِ ناکامیِ عشق
جوابِ نامۂ بے مدعا کیا

ہمیں تھا آپ قصدِ عرضِ احوال
جو وہ خود پوچھتے ہیں پوچھنا کیا

تماشا ہے جلے گر خانۂ غیر
وہ کہتے ہیں کہ آہِ شعلہ زا کیا

فنائے عاشقاں عینِ بقا ہے
دیت زندوں کی کیسی، خون بہا کیا

اگر ہے بوالہوس تو قتل کر چک
عدو سے وعدۂ شوق آزما کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse