جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
by ریاض خیرآبادی

جفا میں نام نکالو نہ آسماں کی طرح
کھلیں گی لاکھ زبانیں مری زباں کی طرح

فریب اثر کو کوئی دے مری فغاں کی طرح
تراشتی ہے یہ فقرے تری زباں کی طرح

یہ کس کی سایۂ دیوار نے مجھے پیسا
یہ کون ٹوٹ پڑا مجھ پہ آسماں کی طرح

ضرور ڈھائیں گے آفت کچھ ان کے ناوک ناز
چڑھے ہیں گوشہ ابرو کڑی کماں کی طرح

رہ حیات کٹی اس طرح کہ اٹھ اٹھ کر
میں بیٹھ بیٹھ گیا گرد کارواں کی طرح

برنگ طائر بو میں ہوں غنچہ و گل ہیں
مرے قفس کی طرح میرے آشیاں کی طرح

نہ تیرے در سے ہٹے تیری ٹھوکریں کھا کر
وہیں جمے رہے ہم سنگ آستاں کی طرح

ہمیں ہے گھر سے تعلق اب اس قدر باقی
کبھی جو آئے تو دو دن کو مہمان کی طرح

گیا چمن کو تو جھک کر بہت ملیں شاخیں
لیا گلوں نے مجھے میرے آشیاں کی طرح

بلا ہے یہ کوئی تھوڑا نہ جانے پیکاں کو
لہو پیے گا ہمارا غم نہاں کی طرح

ذرا سی جان کو لاکھوں طرح کے کھٹکے ہیں
چمن نہ لائے کہیں رنگ آسماں کی طرح

میں آؤں آپ کے گھر کیا مجھے ڈراتے ہیں
عدو کے نقش قدم چشم قدم چشم پاسباں کی طرح

شریک درد تو کیا باعث اذیت ہیں
وہ لوگ جن سے تعلق تھا جسم و جاں کی طرح

تمہیں بھی دے گی مزا کچھ مری مصیبت عشق
کہیں کہیں سے سنو اس کو داستاں کی طرح

رہے کبھی نہ الٰہی مرا قفس خالی
کہ مجھ کو چین ملا اس میں آشیاں کی طرح

مجھے شباب نے مارا بلائے جاں ہو کر
بہار آئی مرے باغ میں خزاں کی طرح

قفس میں لوٹ لئے کون سے مزے میں نے
دکھائے آنکھ نے صیاد باغباں کی طرح

کسی کو چین نہ قاتل کی شوخیوں سے ملا
مرے ہوئے بھی تڑپتے ہیں نیم جاں کی طرح

تری اٹھان ترقی کرے قیامت کی
ترا شباب بڑھے عمر جاوداں کی طرح

جو اپنے گھر کوئی آ لے تو کون دے تکلیف
ستارے کون وہ بیٹھے ہیں مہماں کی طرح

ریاضؔ موت ہے اس شرط سے ہمیں منظور
زمیں ستائے نہ مرنے پر آسماں کی طرح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse