جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے
by امداد امام اثر

جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے
مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے

عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی
معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے

رکاوٹ ہے خلش ہے چھیڑ ہے ایذا پہ ایذا ہے
ستم اہل وفا پر دم بدم ایسا بھی ہوتا ہے

حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں خالی
ستم کے بعد کرتے ہیں کرم ایسا بھی ہوتا ہے

دل مہجور آخر انتہا ہے ہر نحوست کی
کبھی سعدین ہوتے ہیں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

نہ ہو درد جدائی سے جو واقف اس کو کیا کہیے
ہمیں وہ دیکھ کر کہتے ہیں غم ایسا بھی ہوتا ہے

بتوں کے ملنے جلنے پر نہ جانا اے دل ناداں
بڑھا کر ربط کر دیتے ہیں کم ایسا بھی ہوتا ہے

ہمیں بزم عدو میں وہ بلاتے ہیں تمنا سے
کرم ایسا بھی ہوتا ہے ستم ایسا بھی ہوتا ہے

جگہ دی مجھ کو کعبے میں خدائے پاک نے زاہد
تو کہتا تھا کہ مقبول حرم ایسا بھی ہوتا ہے

ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں
کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse