جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے
by شاد لکھنوی

جس کے ہم بیمار ہیں غم نے اسے بھی راندہ ہے
ہو چکا درماں مسیحا آپ ہی درماندہ ہے

جیتے جی کیا مر گئے پر بھی وبال دوش ہے
جو مری میت اٹھاتا ہے وہ دیتا کاندھا ہے

تا قیامت گردش تقدیر جانے کی نہیں
اپنی برگشتہ نصیبی نے وہ چرخا ناندہ ہے

ہے عیاں ہر شے سے دکھلائی نہیں دیتا مگر
واہ رے ڈھٹ بندی کیا سب کی نظر کو باندھا ہے

ہم ادھر بیتاب ادھر وہ برق وش بیتاب ہے
کوندتی بجلی کسی جانب لپکتا کاندہ ہے

اڑ گیا بک بک سے ہم نازک مزاجو کا دماغ
پند گو چپ رہ کہاں کا قصہ ناندہ ہے

ڈر نہیں بے ماترے اے شادؔ ہندی لفظ کا
اس غزل میں قافیہ دانستہ ہم نے باندھا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse