جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے
by منتظر لکھنوی

جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے
چھاتی ہے پہاڑ اس کی تو پتھر کا جگر ہے

اے دل در دنداں کو ذرا دیکھ تو اس کے
کیا درج میں یاقوت کی یہ سلک گہر ہے

کیا صاف کہوں یار کے رخسار کا اوصاف
اک غیرت خورشید ہے ایک رشک قمر ہے

بینائی کہاں اتنی نظر آئے جو مجھ کو
باریک رگ جاں سے بھی کچھ اس کی کمر ہے

کرتا ہے دلا کس لئے تو یار کو بدنام
باعث تری رسوائی کا یہ دیدۂ تر ہے

سمجھوں نہ جدائی کو میں کیوں وصل سے بہتر
صورت تری آنکھوں کے تلے آٹھ پہر ہے

روتا ہے وہ حسرت پہ تری سوختہ جاں کی
جوں شمع سحر جو کوئی سرگرم سفر ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse