جس کو چاہو تم اس کو بھر دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
by امداد علی بحر

جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
ماہ کو نقرہ مہر کو زر دو

پیر مغاں سے عرض یہ کر دو
دکھن بخشو اگر ساغر دو

آہ یہ دونوں آفت جاں ہیں
ناز و ادا لعنت بر ہر دو

جی جلتا ہے آہ کے جھونکو
شمع محبت کو گل کر دو

قطرہ فشانی کیا اے آنکھو
ایسے برسو جل تھل بھر دو

بلبلو صیاد آج خفا ہے
حلق چھری کے نیچے دھر دو

جان ان آنکھوں سے نہ بچے گی
یہ ہے ادھر تنہا وہ ادھر دو

دم کی آمد و شد کیا کہیے
ضعف کی راہ سے ہیں یہ سفر دو

اپنا گلا خود کاٹتے ہیں ہم
دم لو چھری کی تلے بے دردو

جان و مال فدا کرنے میں
فکر و تردد اے نا مردو

عرض یہ ہے نقاش ازل سے
حب کے نقش میں یار کو گھر دو

دولت دل تم تو حاضر ہے
خط عذار تمسک کر دو

شکر گزار بہ ہر صورت ہیں
زہر ہمیں دو یا شکر دو

آنکھوں میں ہے مواد گریہ
بحرؔ ان پھوڑوں کو نشتر دو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.