جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی
by بیتاب عظیم آبادی

جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی
روئے خزاں کو خیر منائے بہار کی

معراج اس کو کہیے ہمارے غبار کی
ورنہ یہ خاک اور ہوا کوئے یار کی

پژمردہ پھول ہوں چمن روزگار کا
تصویر ہوں دورنگئ لیل و نہار کی

نیچی نگاہ آڑ میں مژگاں کی الامان
صیاد جیسے گھات میں بیٹھے شکار کی

چین جبین یار کی چھریاں وہیں چلیں
جوں ہی تڑپ بڑھی نگہ‌ انتظار کی

منہ فق ہے اس طرح مری صبح فراق کا
جیسے ہو پہلی شام غریب الدیار کی

بیتابؔ ختم کر گئے استاد نامدار
جادو نگاریاں قلم سحر کار کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse