Jump to content

جس کو وہ نقش پا نہیں ملتا

From Wikisource
جس کو وہ نقش پا نہیں ملتا (1933)
by نبی بخش نایاب
324082جس کو وہ نقش پا نہیں ملتا1933نبی بخش نایاب

جس کو وہ نقش پا نہیں ملتا
ذرہ بھی خاک کا نہیں ملتا

لوگ تو روتے ہیں غم دل کو
ہم کو دل کا پتا نہیں ملتا

کس نجومی سے پوچھئے جا کر
یار ملتا ہے یا نہیں ملتا

کیوں مرے پاس آئے وہ جب تک
جسم سے سر جدا نہیں ملتا

دل کے دو حرف وہ بھی آپس میں
ایک سے دوسرا نہیں ملتا

مرنا ہے خواب زیست کی تعبیر
خواب میں جو ملا نہیں ملتا

کر چکے سیر بھی دو عالم کی
ایک بھی آپ سا نہیں ملتا

کس سرا میں مسافر آ اترا
زندگی کا مزا نہیں ملتا

جس نے دشمن بھلا دئے سارے
ہم کو وہ آشنا نہیں ملتا

جو در کار ساز تک پہنچے
اس کو نایابؔ کیا نہیں ملتا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).