جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے
by رشید لکھنوی

جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے
جب اٹھے یہ غم کہ دل کا آئنہ پتھر بنے

اب جو وہ بنوائیں گہنا یاد رکھنا گل فروش
پھول بچ جائیں تو میری قبر کی چادر بنے

بعد آرائش بلائیں کون لے گا میرے بعد
یاد کرنا مجھ کو جب زلف پری پیکر بنے

ہے تمہارے سامنے تو جان کا بچنا محال
تم سے جب چھوٹیں تو دیکھیں غیر سے کیوں کر بنے

دونوں عاشق تیرے اور دونوں کی یکجا بود و باش
میری جاں جان و جگر میں دیکھیے کیوں کر بنے

آرزو مند شہادت کی وصیت سب سے ہے
نام کھودا جائے میرا جب کوئی خنجر بنے

دل مشبک ہو گیا تیر نگاہ خانہ سے
اب تمہاری یاد کے آنے کو لاکھوں گھر بنے

غیر سے کوئی تعلق ہی نہ رکھ اے جنگ جو
گر بگڑ مجھ سے بگڑ جو کچھ بنے مجھ پر بنے

خفتگان خاک چونک اٹھے چلے کچھ ایسی چال
آج تو اے میری جاں تم فتنۂ محشر بنے

چاہتے ہو تم رہوں مر کر بھی میں قدموں سے دور
کہتے ہو قبر اس کی میرے کوچہ سے باہر بنے

مر کے بھی پائیں لب ساقی کا بوسہ کیا مجال
واں نہ پہنچے گر ہماری خاک کا ساغر بنے

دامن قاتل کے دھبوں کی گواہی ہو ضرور
گر ہمارے خون کا اے دوستو محضر بنے

دل مجھے اچھا برا جیسا بنایا دے دیا
سر تو کوئی پوچھتا کیسا بنے کیوں کر بنے

قبر کا کونا ہو مسکن دم نکل جائے رشیدؔ
خانۂ تن گر چکے جلدی کہ اپنا گھر بنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse