جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
by بیخود بدایونی

جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں

لوگ کہتے ہیں وہ بھی ہیں بے چین
کچھ یہ بے تابیاں ادھر ہی نہیں

دل کہاں کا جو درد دل ہی نہ ہو
سر کہاں کا جو درد سر ہی نہیں

بے خبر جن کی یاد میں ہیں ہم
خیر سے ان کو کچھ خبر ہی نہیں

بیخودؔ محو و شکوہ ہائے عتاب
اس منش کا تو وہ بشر ہی نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.