جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
by میر حسن دہلوی

جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
اس شخص کا کیا حال ہو پیغام سے تیرے

گالی ہے کہ ہے سحر کوئی یا کہ ہے افسوں
جی شاد ہوا جاتا ہے دشنام سے تیرے

ہے اپنی خوشی اس میں کہ تو جس میں خوشی ہو
آرام ہے اپنے تئیں آرام سے تیرے

آہستہ قدم رکھیو تو اے ناقۂ لیلیٰ
مجنوں کا بندھا آتا ہے دل گام سے تیرے

جب کوچے میں جا بیٹھتے ہیں تیرے تو اپنی
آنکھیں لگی رہتی ہیں در و بام سے تیرے

ہے اپنے ہمیں کام سے کام اے بت خودکام
ہم کام نہیں رکھتے ہیں کچھ کام سے تیرے

کیا ہجر کی رات آئی کہ مانند چراغاں
پھر جلنے لگے داغ حسنؔ شام سے تیرے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse