جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جس سر کو غرور آج ہےياں تاج وري کا

کل اس پر يہيں شور ہے پھر نوحہ گري کا


شرمندہ ترے رخ ہے رخسار پري کا

چلتا نہيں کچھ آگے ترے کبک وري کا


آفاق کي منزل سے گيا کون سلامت

اسباب لٹا راہ ميں ياں سر سفري کا


زنداں ميں بھي شورش نہ گئي اپنے جنوں کي

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سري کا


اپني تو جہاں آنکھ لڑي پھر وہيں ديکھو

آسينے کو لپکا ہے پريشاں نظري کا


صد موسم گل ہم کو تہ بال ہي گزرے

مقدمہ ورنہ ديکھا کبھو بے بال و پري کا


اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو

ٹکڑا ہے بڑا اشک عقيق جگري کا


کل سير کا ہم نے سمندر کو بھي جاکر

تحادست نگر پنجہ مثر گاں کي تري کا


لے سانس بھي آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کي اس کار گہ شيشہ گري کا


ٹک ميرے جگر سوختہ کي جلد خبر لے

کيا يار بھروسا بے چراغ سحري کا