جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
by مرزا غالب

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

اے بے خبراں! میرے لبِ زخمِ جگر پر
بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی

گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے
اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی

دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

صد حیف وہ نا کام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse