جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
by مرزا علی لطف

جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
دامن کی جا یہاں ہیں گریباں لگے ہوئے

اللہ رے قید خانۂ ہستی کہ دم کے ساتھ
ہر اک قدم پہ لاکھوں ہیں زنداں لگے ہوئے

رویا میں دیکھ مرقد مجنوں کو دہاڑ مار
تھے جائے گل درخت مغیلاں لگے ہوئے

بارے چھٹے اسیر بلا اس گلی میں آج
ہیں تودہ ہائے گنج شہیداں لگے ہوئے

یاران پیش رو ذرا ٹھہرو کہ جیوں جرس
ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں نالاں لگے ہوئے

رکھ سوچ کر قدم مری وادی میں گرد باد
پاؤں سے اپنے ہیں یہ بیاباں لگے ہوئے

کوئی تو میرے ناصح دانا سے یہ کہو
دل چھوٹتے ہیں باتوں میں ناداں لگے ہوئے

کیا دن تھے وہ بھی لطفؔ کہ رہتے تھے مثل زلف
کانوں سے اس کے ہم سے پریشاں لگے ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse