جس دن سے حرام ہو گئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
by ریاض خیرآبادی

جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے خلد مقام ہو گئی ہے

قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے

افتاد چمن یہ ہے کہ بلبل
خود ہی تہ دام ہو گئی ہے

توبہ سے گھٹی یہ قدر و قیمت
مے دام کے دام ہو گئی ہے

آتی ہے قیامت اس گلی میں
پامال خرام ہو گئی ہے

توبہ سے ہماری بوتل اچھی
جب ٹوٹی ہے جام ہو گئی ہے

کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے

لب تک جو کبھی نہ آئے وہ آہ
اونچی سو بام ہو گئی ہے

مے نوش ضرور ہیں وہ نا اہل
جن پر یہ حرام ہو گئی ہے

بجھ بجھ کے جلی تھی قبر پر شمع
جل جل کے تمام ہو گئی ہے

آ جائے اسے جو آئے مجھ تک
موت ان کا پیام ہو گئی ہے

ہر بات میں ہونٹھ پر ہے دشنام
اب حسن کلام ہو گئی ہے

سر خم ہے حرم میں سوئے طیبہ
کچھ خوئے سلام ہو گئی ہے

دولت دل کی بتو ہے محفوظ
اللہ کے نام ہو گئی ہے

پھر پھر کے نظر ہوئی ہے صدقے
جم کر خط جام ہو گئی ہے

ہے دور ابھی ریاضؔ منزل
دن ختم ہے شام ہو گئی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse