جس دن تم آ کے ہم سے ہم آغوش ہو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس دن تم آ کے ہم سے ہم آغوش ہو گئے
by میر محمدی بیدار

جس دن تم آ کے ہم سے ہم آغوش ہو گئے
شکوے جو دل میں تھے سو فراموش ہو گئے

ساقی نہیں ہے ساغر مے کی ہمیں طلب
آنکھیں ہی تیری دیکھ کے بے ہوش ہو گئے

سننے کو حسن یار کی خوبی برنگ گل
اعضا مرے بدن کے سبھی گوش ہو گئے

کرتے تھے اپنے حسن کی تعریف گل رخاں
اس لالہ رو کو دیکھ کے خاموش ہو گئے

اے جان دیکھتے ہی مجھے دور سے تم آج
یہ کون سی ادا تھی کہ روپوش ہو گئے

رہتے تھے بے حجاب مرے پاس جن دنوں
وے روز ہائے تم کو فراموش ہو گئے

دنیا و دین کی نہ رہی ہم کو کچھ خبر
ہوتے ہی اس کے سامنے بے ہوش ہو گئے

بیدارؔ بسکہ روئے ہم اس گل کی یاد میں
سر تا قدم سرشک سے گل پوش ہو گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse