جس دم وہ صنم سوار ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس دم وہ صنم سوار ہووے
by مرزا محمد رفیع سودا

جس دم وہ صنم سوار ہووے
تا صید حرم شکار ہووے

جو اٹھ نہ سکے تری گلی سے
رہنے دے کہ تا غبار ہووے

محکم تو رزاق بن سکے ہے
گو عمر کہ پائیدار ہووے

وہ قصر تو چاہتا نہیں میں
جس میں گل و گلعذار ہووے

وسعت مرے سینے بیچ اے دہر
ٹک دل کو شگفتہ وار ہووے

سوزن کی نہ جیب کیجو منت
یوں پھٹیو کہ تار تار ہووے

شبنم سے بھرے ہے ساغر گل
گردوں تو خراب و خوار ہووے

پانی نہیں دیتے اس کو ظالم
جو زخمیٔ بے شمار ہووے

ناصح تو قسم لے ہم سے، دل پر
اپنا کبھو اختیار ہووے

کھینچے ہے کوئی بھی تیغ پیارے
جمدھر کہ جب آب دار ہووے

کن زخموں میں زخم ہے کہ جب تک
چھاتی کے نہ وار پار ہووے

کھینچی ہے بھواں نے تیغ مکھ پر
سوداؔ سے کہو نثار ہووے

ویسے ہی کاہے یہ کام گل رو
عاشق ہی نہ گو ہزار ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse