جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا
by عیش دہلوی

جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا
وہ دل نہیں ہوتا نہیں ہوتا نہیں ہوتا

عاشق جسے کہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوتا
اور ہوئے بھی بالفرض تو مجھ سا نہیں ہوتا

جو کشتۂ تیغ نگہ یار ہیں ان پر
کچھ کارگر اعجاز مسیحا نہیں ہوتا

مانا کہ ستم کرتے ہیں معشوق مگر آپ
جو مجھ پہ روا رکھتے ہیں ایسا نہیں ہوتا

جو مست ہے ساقی نگہ مست کا وہ تو
منت کش جام و مے و مینا نہیں ہوتا

کہتا ہے کوئی شعلۂ جوالہ کوئی برق
اس دل پہ گماں لوگوں کو کیا کیا نہیں ہوتا

زاہد ہو دوچار نگہ مست تو دیکھیں
آلودہ بہ مے کیونکہ مصلیٰ نہیں ہوتا

ہاں کچھ تو بیان ہوس دل میں ہے لذت
جو لب سے جدا حرف تمنا نہیں ہوتا

تسکین دل سوختۂ شمع کی خاطر
کس شب پر پروانہ سے پنکھا نہیں ہوتا

دل عشق نے اتنا بھی نہ چھوڑا کہ جو کہویں
تقسیم جز لا یتجزا نہیں ہوتا

دے بیٹھے ہو دل عیشؔ تم ان لوگوں کو جن کی
بیداد کا واں بھی کوئی شنوا نہیں ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse