جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
by مرزا غالب

جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے

تب نازِ گراں مایگیِ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

اس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے

مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تنِ نازک
آغوشِ خمِ حلقۂ زُنّار میں آوے

غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے

تب چاکِ گریباں کا مزا ہے دلِ نالاں
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse