جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں
by شاد عظیم آبادی

جسے پالا تھا اک مدت تک آغوش تمنا میں
وہی بانی ہوا میرے غم و درد و اذیت کا

اسی کے ہاتھ سے کیا کیا سہا سہنا ہے کیا کیا کچھ
الٰہی دو جہاں میں منہ ہو کالا اس مروت کا

کریں انصاف کا دعویٰ اثر کچھ بھی نہ ظاہر ہو
مزا چکھا ہے ایسے دوستوں سے بھی محبت کا

مٹائیں تاکہ اپنے ظلم کرنے کی ندامت کو
نکالیں ڈھونڈ کر ہر طرح سے پہلو شکایت کا

حسد جی میں بھرا ہے لاگ ہے اک عمر سے دل میں
کریں ظاہر اگر موقع ہے اظہار عداوت کا

طمع میں کچھ نہ سمجھیں باپ اور بھائی کی حرمت کو
عمل دیکھو تو یہ پھر کچھ کریں دعوا شرافت کا

مری عمر دو روزہ بیکسی کے ساتھ کٹتی ہے
نہ اپنوں سے نہ غیروں سے ملا ثمرہ ریاضت کا

جسے دیکھا جسے پایا غرض کا اپنی بندہ تھا
جہاں میں اب مزا باقی نہیں خالص محبت کا

ہمارا کلبۂ احزاں ہے ہم ہیں یا کتابیں ہیں
رہا باقی نہ کوئی ہم نشیں اب اپنی قسمت کا

خدا آباد رکھے شادؔ میرے ان عزیزوں کو
مزا چکھوا دیا القرض مقراض المحبت کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse