جسے عشق کا تیر کاری لگے
Appearance
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ تک
جسے یار جانی سوں یاری لگے
نہ ہووے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیارے تری بات پیاری لگے
ولیؔ کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |