جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے
by دیا شنکر نسیم

جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے
تجھی کو ڈھونڈھنے کھویا ہے پیارے

قسم ہے دیدۂ گریاں کی مجھ کو
کہ دنیا عالم رویا ہے پیارے

نہال آہ ہوگا دانۂ اشک
اوگے گا وہ جو کچھ بویا ہے پیارے

تجھے دل دے کے میں نے آزمایا
وہ سیکھا جس نے کچھ کھویا ہے پیارے

کسی کے کان بھرنے پر نہ رکھ دھیان
ہر ایک منہ میں زباں گویا ہے پیارے

میں جاگا شب سر گیسو میں ورنہ
جسے کالا ڈسے سویا ہے پیارے

مرا دل جل بجھا شب سے یہاں کوں
چراغ مردہ پر رویا ہے پیارے

نظارہ کب کیا اس چشم تر نے
عبث دامن ترا دھویا ہے پیارے

ملا دو لب کہاں کا آب حیواں
خضر کا راستہ کھویا ہے پیارے

کفن اپنے نسیمؔ کشتہ کا سونکھ
ہر ایک برگ گل بویا ہے پیارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse