Jump to content

جسم کے اس پار

From Wikisource
جسم کے اس پار
by میراجی
304668جسم کے اس پارمیراجی

اندھیرے کمرے میں بیٹھا ہوں
کہ بھولی بھٹکی کوئی کرن آ کے دیکھ پائے
مگر سدا سے اندھیرے کمرے کی رسم ہے کوئی بھی کرن آ کے دیکھ پائے
بھلا یہ کیوں ہو
کوئی کرن اس کو دیکھ پائے تو اس گھڑی سے
اندھیرا کمرہ اندھیرا نہیں رہے گا
وہ ٹوٹ کر تیرگی کا اک سیل بے کراں بن کے بہہ اٹھے گا
اور اس گھڑی سے اس اجالے کا کوئی مخزن بھی روک پائے بھلا یہ کیوں ہو
ہزار سالوں کے فاصلے سے یہ کہہ رہا ہوں
ہزاروں سالوں کے فاصلے سے مگر کوئی اس کو سن رہا ہے یہ کون جانے

سیاہ بالوں کی تیرگی میں تمہارا ماتھا چمک رہا ہے
تمہاری آنکھوں میں اک کرن ناچ ناچ کر مجھ سے کہہ رہی ہے
کہ میرے ہونٹوں میں ہے وہ امرت
ہزاروں سالوں کے فاصلے سے جو رس رہا ہے
مگر یہ سب سال نور کے سال تو نہیں تیرگی کے بھی سال یہ نہیں ہیں
یہ سال تو فاصلے کی پیچیدہ سلوٹیں ہیں
اندھیرا کمرہ اندھیرا کیوں ہے
تمہارے بالوں کی تیرگی میں نگاہ گم ہے
یہ بند جوڑا جو کھل کے بکھرے تو پھر کرن بھی سنور کے نکھرے
تمہارا ملبوس اک سپیدی پہ دھاریوں سے سجھا رہا ہے
اندھیرے کمرے میں جب کرن آئی تیرگی دھاریاں بنے گی
اور اس کرن سے اندھیرا پل بھر اجالا بن کر پکار اٹھے گا
کہ بھولی بھٹکی یہاں کبھی تیرگی بھی آئے
ہزاروں سالوں کا فاصلہ تیرگی بنا ہے

تمہارے ہونٹوں پہ گیت کے پھول مسکرائے کہ تم نے اپنے لباس کو یوں اتار پھینکا
کہ جیسے راگی نے تان لی ہو
تمہاری ہر تان تیرگی کی سیاہ دھارا بنی ہوئی ہے
کوئی کرن اس سے پھوٹ پائے بھلا یہ کیوں ہو

سیاہ کمرہ تمہاری تانوں سے گونجتا ہے
ہزاروں سالوں سے گونجتا ہے
سیاہ کمرہ تمہارے بالوں کی تیرگی سے چمک رہا ہے
سیاہ کمرہ لباس کی ہر اچھوتی کروٹ سے کہہ رہا ہے
یہاں تم آؤ یہاں کوئی تم کو دیکھ پائے نہیں یہ ممکن
یہاں کرن آئی تو وہ فوراً اندھیرے کمرے میں جا چھپے گی
اور اس پہ دھارا لباس کی یوں بہے گی جیسے
اندھیرا کمرہ اندھیرا کمرہ کبھی نہیں تھا
وہ اک کرن تھی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.