جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے
by ساحر دہلوی

جسد نے جان سے پوچھا کہ قلب بے ریا کیا ہے
خطاب آیا کہ آئینہ میں جوہر کے سوا کیا ہے

عیاں آئینہ میں ہے صورت معنی صفا کیا ہے
نہاں تسکین میں ہے اضطراب دل ریا کیا ہے

مٹانا آپ کو نابود ہو جانا فنا کیا ہے
سمانا آپ میں اور خود بہ خود ہونا بقا کیا ہے

دو عالم جلوہ گاہ حسن میں عین بصیرت میں
یہ عکس شخص ہے آئینہ میں صورت نما کیا ہے

وہ یکتا ذات ہے عین سرور علم و حق اے دل
نہاں کثرت میں وحدت ہو گئی ہے ماسوا کیا ہے

قدم ہے ذات واحد حال ہے ماضی و مستقبل
ازل سے تا ابد کی ابتدا کیا انتہا کیا ہے

مٹا کر دل سے پندار خودی انصاف سے دیکھو
کہ بے ذوق تمنا ہستی بیم و رجا کیا ہے

نہ تھے آپے میں موسی ورنہ ان کا حوصلہ کیا تھا
جو بول اٹھتے کہ آ پردہ سے باہر دیکھتا کیا ہے

تجلی بن گئی ساحرؔ نقاب روئے جان جاں
کہ دیدن حکم نادیدن ہے یا رب ماجرا کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse