جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
by مرزا غالب

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

آشفتگی نے نقش سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا

عالم جہاں بہ عرض بساط وجود تھا
جوں صبح چاک جیب مجھے تار و پود تھا

بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرت بود و نبود تھا

عالم طلسم شہر خموشی ہے سربسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا

تنگی رفیق رہ تھی عدم یا وجود تھا
میرا سفر بہ طالع چشم حسود تھا

تو یک جہاں قماش ہوس جمع کر کہ میں
حیرت متاع عالم نقصان و سود تھا

گردش محیط ظلم رہا جس قدر فلک
میں پائمال غمزۂ چشم کبود تھا

پوچھا تھا گرچہ یار نے احوال دل مگر
کس کو دماغ منت گفت و شنود تھا

خور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدؔ
سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse