جزو اور کل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جزو اور کل
by میراجی

سمجھ لو کہ جو شے نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں
کہیں بھی نہیں ہے
سمجھ لو کہ جو شے دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے
وہ یہیں ہے
یہیں ہے مگر اب کہاں ہے
مگر اب کہاں ہے
یہ کیا بات ہے ایسے جیسے ابھی وہ یہیں تھی
مگر اب کہاں ہے
کوئی یاد ہے یا کوئی دھیان ہے یا کوئی خواب ہے
نہ وہ یاد ہے اور نہ وہ دھیان ہے اور نہ وہ خواب ہے
مگر پھر بھی کچھ ہے
مگر پھر بھی کچھ ہے
وہ اک لہر ہے ہاں فقط لہر ہے
وہ اک لہر ہے ایسی جیسی کسی لہر میں بھی کوئی بات ہی تو نہیں ہے
اسی بات کو رو رہا ہوں
اسی بات کو رو رہا ہے زمانہ
زمانہ اگر رو رہا ہے تو روئے
مگر میں ازل سے تبسم ہنسی قہقہوں ہی میں پلتا رہا ہوں
ازل سے مرا کام ہنسنا ہنسانا رہا ہے
تو کیا جب زمانہ ہنسا تھا تو اس کو ہنسایا تھا میں نے
یہ تم کہہ رہے ہو جو روتے رہے ہو
اگر تم یہ کہتے ہو میں مانتا ہوں
مگر جب زمانے کو رونا رلانا ملانا ہے تو روتا رہے گا زمانہ
فقط میں ہنسوں گا
یہ ممکن نہیں ہے
زمانہ اگر روئے روؤں گا میں بھی
زمانہ ہنسے گا تو میں بھی ہنسوں گا
مگر یہ زمانے کا ہنسنا یہ رونا وہ شے ہے نظر آئے اور
یہ کہے میں کہاں ہوں کہیں بھی نہیں ہوں
زمانے کا ہنسنا زمانے کا رونا وہ شے ہے
دکھائی دیا کرتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے اور یہیں ہے
میں ہنستا چلا جاؤں گا اور روتا چلا جاؤں گا اور پھر بھی
زمانہ کہے گا تو روتا رہا ہے تو ہنستا رہا ہے
مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے کہ میں ہی وہ شے ہوں
جو اب بھی نظر آئے اور یہ کہے میں کہاں ہوں تو پھر بھی دکھائی
نہ دے اور کہے میں کہیں بھی نہیں ہوں
میں روتا رہا تھا میں ہنستا گیا ہوں
مگر تم تو ہنستے گئے تھے
بس اب تم ہی روؤ گے اور صرف
اک میں ہوں جو اب بھی ہنستا رہوں گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse