جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری
by سیماب اکبرآبادی

جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری
جگا دیتی ہے دنیا کو صدائے الاماں میری

تصور میں وہ کچھ برہم سے ہیں کچھ مہرباں سے ہیں
انہیں شاید سنائی جا رہی ہے داستاں میری

ہر اک ذرہ ہے صحرا اور ہر صحرا ہے اک دنیا
مگر اس وسعت عالم میں گنجائش کہاں میری

مری حیرت پہ وہ تنقید کی تکلیف کرتے ہیں
جنہیں یہ بھی نہیں معلوم نظریں ہیں کہاں میری

مسلسل تھا فریب خواب گاہ عالم فانی
مگر سوتا رہا چلتی رہی عمر رواں میری

وہی لمحہ ورود ناگہاں کا ان کے ہو شاید
جتا کر آئے جب بھی آئے مرگ ناگہاں میری

مذاق ہم زبانی کو نہ ترسوں باغ جنت میں
کوئی سیمابؔ حوروں کو سکھا دیتا زباں میری

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse