جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا
by امداد علی بحر

جذب الفت نے دکھایا اثر اپنا الٹا
آہ جب ہونٹھوں پر آئی تو کلیجہ الٹا

رات بھر بیٹھے رہے منتظری میں اس کی
صبح جب ہو گئی حسرت سے بچھونا الٹا

حق بہ جانب ہے اگر ہم سے وہ مہوش پھر جائے
چلن افلاک کا اوندھا ہے زمانا الٹا

جائے حیرت ہے جو نفرت نہ ہو خود بینی سے
نظر آتا ہے اس آئینے میں چہرا الٹا

زینت رنگ بقا چاہتے ہیں نقش فنا
اس مرقع کا دکھائی دیا نقشہ الٹا

ملگجی چادر مہتاب نظر آنے لگی
اس نے چہرے سے جو سوتے میں دوپٹا الٹا

اب تو یاروں سے بھی یاری کی توقع نہ رہی
حال پرسی کے عوض کرتے ہیں شکوا الٹا

قفل دروازے میں کیوں آج نظر آتا ہے
کون جھانکا تمہیں کس شخص نے پردا الٹا

مر گیا میں جو مجھے پیار سے مارا اس نے
سیدھی تلوار ہوا اس کا طمانچہ الٹا

مے کدہ چھوڑ کے کیوں خم میں فلاطوں بیٹھا
ایسی ہی عقل نے یونان کا تختہ الٹا

مرض عشق میں آرام کسی طور نہیں
کبھی سیدھا جو دم آیا تو کلیجہ الٹا

پھر الٹ کر نہ خبر لی ہوئے ایسے غافل
اب تو آؤ کہ میں دم لیتا ہوں الٹا الٹا

نہ تو وہ پھول نہ کلیاں نہ وہ سبزہ نہ بہار
رت کی پھرتی ہے چمن زار کا تختہ الٹا

ایک جلوہ تو بھلا اور بھی وقت رخصت
بہر گل باد بہاری کوئی جھونکا الٹا

بحرؔ کیا کوچۂ جاناں سے پھرے گھر کی طرف
کبھی دیکھا نہیں بہتے ہوئے دریا الٹا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse