جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
by اکبر الہ آبادی

جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے
گھنگھروؤں کی جانب در کچھ صدا آئی تو ہے

عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے

آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں
بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے

جب کہا میں نے تڑپتا ہے بہت اب دل مرا
ہنس کے فرمایا تڑپتا ہوگا سودائی تو ہے

دیکھیے ہوتی ہے کب راہی سوئے ملک عدم
خانۂ تن سے ہماری روح گھبرائی تو ہے

دل دھڑکتا ہے مرا لوں بوسۂ رخ یا نہ لوں
نیند میں اس نے دلائی منہ سے سرکائی تو ہے

دیکھیے لب تک نہیں آتی گل عارض کی یاد
سیر گلشن سے طبیعت ہم نے بہلائی تو ہے

میں بلا میں کیوں پھنسوں دیوانہ بن کر اس کے ساتھ
دل کو وحشت ہو تو ہو کمبخت سودائی تو ہے

خاک میں دل کو ملایا جلوۂ رفتار سے
کیوں نہ ہو اے نوجواں اک شان رعنائی تو ہے

یوں مروت سے تمہارے سامنے چپ ہو رہیں
کل کے جلسوں کی مگر ہم نے خبر پائی تو ہے

بادۂ گل رنگ کا ساغر عنایت کر مجھے
ساقیا تاخیر کیا ہے اب گھٹا چھائی تو ہے

جس کی الفت پر بڑا دعویٰ تھا کل اکبرؔ تمہیں
آج ہم جا کر اسے دیکھ آئے ہرجائی تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse