جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
by محمد ابراہیم ذوق

جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا

تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا
رہے ہے کیوں کہ گلستاں سے عندلیب جدا

دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بت کافر
تو چیخ اٹھے موذن جدا خطیب جدا

جدا نہ درد جدائی ہو گر مرے اعضا
حروف درد کی صورت ہوں اے طبیب جدا

ہے اور علم و ادب مکتب محبت میں
کہ ہے وہاں کا معلم جدا ادیب جدا

ہجوم اشک کے ہم راہ کیوں نہ ہو نالہ
کہ فوج سے نہیں ہوتا کبھی نقیب جدا

فراق خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا

کیا حبیب کو مجھ سے جدا فلک نے مگر
نہ کر سکا مرے دل سے غم حبیب جدا

کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عن قریب جدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse