جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
by نظیر اکبر آبادی

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے
الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو

علاج کیا کریں حکما تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو

نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse