جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
by وحشت کلکتوی

جدا کریں گے نہ ہم دل سے حسرت دل کو
عزیز کیوں نہ رکھیں زندگی کے حاصل کو

نہاں اگرچہ ہے محفل سے سوز دل میرا
مگر یہ راز ہے معلوم شمع محفل کو

وہ طول کھینچا بلا کا ترے تغافل نے
کہ صبر آ ہی گیا میرے مضطرب دل کو

کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل
بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو

وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام
وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو

خبر ہوئی نہ انہیں میرے مضطرب دل کی
غلط خیال ہے یہ دل سے راہ ہے دل کو

بلا کی ہوتی ہے وحشتؔ کی بھی غزل خوانی
کہ اک سرور سا ہوتا ہے اہل محمل کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse