جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
by شاہ نصیر

جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ

لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیٔ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ

کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانۂ خراب کے بیچ

ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ

برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ

نصیرؔ آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse