جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
by منیرؔ شکوہ آبادی

جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
چلے جاؤ ہم دل سنبھالے ہوئے ہیں

زمانے کی فکروں نے کھایا ہے ہم کو
ہزاروں کے منہ کے نوالے ہوئے ہیں

گزند اپنے ہاتھوں سے پہنچا ہے ہم کو
یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں

نہیں نام کو ان میں بوئے مروت
یہ گل رو مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں

نہیں اعتبار ایک دم زندگی کا
ازل سے قضا کے حوالے ہوئے ہیں

ہزاروں کو تھے سرفروشی کے دعوے
تصدق فدا ہونے والے ہوئے ہیں

ہم آواز ہیں عیش و غم دونوں لیکن
ترانے یہ ٹھہرے وہ نالے ہوئے ہیں

منیرؔ اب رہ حق میں لغزش نہ ہوگی
ید اللہ مجھ کو سنبھالے ہوئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse