جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
by مضطر خیرآبادی

جدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے
دہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تمہارے عشق میں دنیا ہے دشمن
خدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

حسینوں کی گلی ہے اور میں ہوں
گدائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

تری جلاد آنکھوں کی ستم گر
صفائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

اسیری میں مزا تھا فصل گل کا
رہائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

خفا ہیں وہ دعاؤں کے اثر پر
رسائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

کیے دیتا ہے قاتل ذبح مضطرؔ
کلائی مجھ کو مارے ڈالتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse